Eham Khabar

سی پیک کےلئے کوئی ماسٹر پلان تیار نہیں کیا گیا، عاصم صدیقی

کراچی (انٹرویو،ایم رضا) پرائیویٹ سیکٹر کو سی پیک میں بزنس کرنے کے لئے کسی قسم کی کوئی ترغیب نہیں دی جارہی۔ اب تک حکومت کی جانب سے سی پیک کے لئے کوئی ماسٹر پلان تیار نہیں کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار معروف آل پاکستان شیپنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم عظیم صدیقی نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر پرائیویٹ سیکٹر کی افادیت اور اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، کیونکہ حکومت جو پلان بناتی ہے، وہ صرف چند افراد کے لئے ہی ہوتے ہیں، جبکہ پرائیویٹ سیکٹر اس بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ایک قرضے کو واپس کرنے کے لئے دوسرا قرضہ لیا جارہا ہے، جبکہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہم سود پر پیسہ نہیں لے رہے۔ گزشتہ حکومت نے پرائیویٹ سیکٹرز کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری ساری امیدیں اس نئی حکومت سے ہیں۔ سی پیک میں پرائیویٹ سیکٹر کو نظر انداز کیا گیا، اس میں دونوں طرف کی حکومتیں کام کررہی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی چاہتی ہیں کہ وہ ملک میں ہونے والے بڑے منصوبے جیسے سی پیک ہے، اس میں انویسٹ کرے۔ گوادر میں اگر پرائیویٹ انڈسٹریز قائم کی جائیں تو کراچی سے لوگ کام کرنے کے لئے گوادر جائیں گے۔ حکومت اگر سی پیک میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرے تو وہ پرائیویٹ سیکٹر اس ڈیولپمنٹ کے ساتھ ساتھ پسماندہ علاقوں کے رہنے والوں کے لئے اسکول، اسپتال، گھر، انڈسٹریز اور دیگر پروجیکٹ بھی مہیا کرتے۔ کیونکہ جتنے بھی انتہا پسندی ہے وہ ان پسماندہ علاقوں سے ہی باہر آتی ہے اور سی پیک کا زیادہ تر حصہ ان خط غربت سے نیچے رہنے والے علاقوں سے ہی گزر رہا ہے۔ عاصم صدیقی نے کہا کہ گوادر پورٹ میں چائنا کیا کررہا ہے، پانچ سال گزرنے کے باوجود آج تک اس کا ماسٹر پلان تیار نہیں ہوا۔ ہمیں حکومت کی نیت پر کوئی شک نہیں ہے لیکن ہمارا سوال ابھی بھی وہی ہے کہ عوام سے ماسٹر پلان کو کیوں چھپایا جارہا ہے۔ حکومت اس بارے میں سوچے کہ ہمارے سرمایہ کار بیرون ملک کیوں سرمایہ کاری کررہے ہیں، وہ دبئی، برطانیہ، سنگاپور اور دیگر ممالک میں سرمایہ کرکے انہیں فائدہ پہنچا رہے ہیں، کیا یہ سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں ہوسکتی۔ یہ کام حکومت کے سوچنے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرین لائن، اورنج لائن، میٹرو، بجلی اور دیگر منصوبوں کے باوجود حکومتی خسارہ ایک ہزار ارب سے بڑھ چکا ہے۔ حکومتی توجہ صرف سی پیک پر ہے، جس کے باعث پرائیویٹ سیکٹر کے لئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا جارہا۔ عاصم صدیقی نے کہا کہ کاروبار کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر مقامی سرمایہ کاروں کو اپنے کاروبار میں شامل کیا جائے تو بیرونی سرمایہ کاری خودبخود آجاتی ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو ساتھ لے کر چلے کیونکہ اس حکومت میں شامل بیشتر وزراءپرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں۔ رزاق داﺅد اور اسد عمر پرائیویٹ سیکٹرز سے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں وزراءپرائیویٹ سیکٹر کی زبان سمجھتے ہیں۔ حکومت اگر چاہتی ہے کہ برآمدات بڑھے تو انہیں چاہئے کہ آج سے ہی کوشش کریں کیونکہ برآمدات بڑھیں گی تو ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنے دس ماہ کے دور حکومت میں 22 فیصد برآمدات میں اضافہ کیا۔ انہوں نے برآمد کنندگان کو سہولیات فراہم کیں تو پرائیویٹ سیکٹر خودبخود اس طرف راغب ہوئے۔ حکومت اس طرح کی سرمایہ کاری کی پالیسی کو لے کر آئے۔ انہوں نے کہا کہ شپنگ کمپنیاں کرائے کی مد ڈھائی ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرتی ہیں۔ میرین ٹائم پالیسی پر میری نظر ہے کہ کس طرح ڈھائی ارب ڈالر جو ہم کرائے کی مد میں دیتے ہیں، اسے کس طرح بچایا جاسکے۔ اگر پرائیویٹ سیکٹر کو سہولیات دی جائیں تو مقامی سرمایہ کار اپنے جہاز خرید کر درآمدی اور برآمدی کنسائمنٹس کی ترسیل کرسکتے ہیں جس سے ڈالر میں ادا کئے جانے والے فریٹ کی بچت کی جاسکتی ہے اور مقامی افراد کو روزگار بھی مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پی این ایس سی کو تیل کی درآمدات میں سہولیات دی ہیں، ان کے پاس گیارہ جہاز ہیں، ان جہازوں کے ذریعہ تیل کی درآمدات کے باعث ڈالر میں جانے والے فریٹ کی بچت ہورہی ہے۔ اگر اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کو ذمہ داری دیں گے تو آپ مزید بچت کرسکتے ہیں۔ 1970ءمیں قومیائے گئے پالیسی سے پہلے پاکستانیوں کے 200 سے زائد جہاز تھے۔ پی این ایس سی ملکی تیل کی کھپت کا 13 سے 14 فیصد اپنے جہازوں کے ذریعہ درآمد کرتا ہے اگر یہی سہولیات پرائیویٹ دی جائیں اور اگر ان سے کہا جائے کہ ہم آپ کو ڈالرز کے بجائے پاکستانی روپوں میں ادائیگی کریں گے تو 300 سے 400 ملین ڈالر کا فریٹ باآسانی بچایا جاسکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس طریقہ کار سے پاکستان جو بیرونی ممالک کو ڈھائی ارب ڈالر ادا کرتا ہے، اسے کم کرکے ایک ارب ڈالر تک لایا جاسکتا ہے۔ عاصم صدیقی نے کہا کہ حکومت نے جب ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تو بیرون ملک پاکستانیوں نے 9 ارب ڈالر کے اپنے اثاثے ظاہر کئے۔ اگر انہیں سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ پاکستانی اپنے سرمایہ کو پاکستان میں لگا سکتے ہیں۔ امریکہ، جرمنی، چائنا اور بھارت کی حکومتوں نے اپنے سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں سہولیات فراہم کی ہیں۔ وہاں کی حکومت سرمایہ کاروں کو اس شرط پر سہولیات دیتی ہیں کہ آپ یہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار دیں گے۔ اگر پاکستانی حکومت مقامی سرمایہ کاروں کو مشروط ٹیکس سہولیات دیتی ہیں تو یہاں بھی روزگار کے دروازے کھل سکتے ہیں لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مخلص ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button