Exclusive Reports

ایف بی آر محصولات میں 272 ارب کمی کا خدشہ

کراچی (اسٹاف رپورٹر) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے رواں مالی سال کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ پاکستان کے لیے 1.5 فیصد معاشی شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے 1.5 فیصد کی شرح نمو چند روز قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کی گئی ترمیم شدہ 3 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو کی پیش گوئی کے بالکل برعکس ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کے اندازے ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق ہیں جس نے رواں سال کے دوران 1.3 فیصد کی شرح نمو کی پیش گوئی کی تھی۔ ورلڈ اکنامک آئوٹ لک 2021 کی رپورٹ میں واشنگٹن میں قائم قرض دینے والی ایجنسی نے رواں مالی سال کے دوران افراط زر کی اوسط شرح 8.7 فیصد، جی ڈی پی کے 1.5 فیصد پر کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور بیروزگاری میں 0.5 فیصد سے 5 فیصد تک اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے رواں سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کے لیے 2.1 فیصد، افراط زر کی 6.5 فیصد اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کے لیے 1.6 فیصد کے طے شدہ اہداف کے بالکل برعکس ہے۔ اس سے آگے بڑھیں تو آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ اقتصادی نمو کی شرح اگلے سال (مالی سال 2022) میں جی ڈی پی کے 4 فیصد اور 2026 تک 5 فیصد ہوجائے گی۔ اس کا کہنا ہے کہ افراط زر کی شرح گزشتہ سال 10.2 فیصد سے کم ہوکر سالانہ بنیادوں پر رواں سال 8 فیصد ہوجائے گی اور مالی سال 2022 تک اوسطا 10 فیصد ہوجائے گی۔آئی ایم ایف نے تخمینہ لگایا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ مالی سال 2020 میں جی ڈی پی کے 1.1 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 2021 میں 1.5 فیصد اور پھر مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کے 1.8 فیصد اور 2026 تک جی ڈی پی کے 2.9 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ ڈبلیو ای او نے عالمی نمو کی 2021 میں 6 فیصد کی مضبوط بحالی کی پیش گوئی کی ہے جو جون 2020 کی پیش گوئی سے 0.8 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘2020 میں 3.3 فیصد کے تخمینے کے بعد عالمی معیشت میں 2021 میں 6 فیصد کی نمو متوقع ہے جو 2022 میں 4.4 فیصد ہوجائے گی۔2021 اور 2022 کے تخمینے اکتوبر 2020 ڈبلیو ای او کے مقابلے میں 0.8 فیصد پوائنٹ اور 0.2 فیصد پوائنٹس مضبوط ہیں جو چند بڑی معیشتوں میں اضافی مالی اعانت اور سال کے دوسرے نصف حصے میں ویکسین سے متوقع بحالی کی عکاسی کرتی ہے۔ڈبلیو ای او نے مشاہدہ کیا کہ غیر معمولی پالیسیز کی بدولت کووڈ 19 سے 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے مقابلے میں کم نقصان سامنے آنے کا امکان ہے تاہم ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور کم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ انہیں اس سے زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button