ایف آئی اے نے کرپشن کے الزام میں اعلیٰ کسٹمزافسران کے خلاف ایف آئی آردرج کرلی
کراچی(اسٹاف رپورٹر)فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام میں کسٹمزافسران یاورعباس،طارق محمود،سابق کلکٹرانفورسمنٹ عثمان باجوہ،سابق ڈائریکٹرکسٹمزانٹیلی جنس ثاقف سعید،کلکٹرانفورسمنٹ عامرتھیم اورچھالیہ کی لین دین میں ملوث عمران نورانی کے خلاف مقدمہ درج کرلیاہے۔ایف آئی آریاورعباس اورطارق محمودکو 13جولائی کی شام جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اسلام آباد جاتے ہوئے گرفتارکیاگیاان افسران سے 54لاکھ روپے، دوہزار400سوامریکی ڈالراور6ہزاردرہم برآمدہوئے جو اسلام آباد منتقل کئے جارہے تھے۔دونوں افسران نے تفتیش کے دوران یہ بھی اعتراف کیا کہ عثمان باجوہ (سابق کلکٹر انفورسمنٹ) نے مارچ 2023 سے اپریل 2023 کے مہینے میں نقد اور سونے کی شکل میں 160 ملین روپے کی ا سپیڈ منی/رشوت وصول کی تھی جواسمگلروں کو سہولت فراہم کرنے کے خلاف مختلف کسٹم چیک پوسٹوں پر جمع کی گئی ا سپیڈ منی سے بڑے شیئرز حاصل کرنے والے کسٹم افسران میں ثاقف سعید بھی شامل ہے۔ایف آئی آرکے مطابق 2020 میں، ثاقب سعید کو کلکٹر انفورسمنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا جس نے اسمگلنگ کا منظم نیٹ ورک شروع کیا اور اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کو انسداد اسمگلنگ کے کردار میں تعینات کیا جو مختلف اسمگلروں سے اسپیڈ منی اکٹھا کر رہے تھے۔ثاقف سعید کے بعد، عثمان باجوہ کو کلکٹر انفورسمنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا جو تقریباً 100 ملین روپے ماہانہ کی بھاری رشوت/اسپیڈ منی کے عوض اسمگلروں کو اپنا نیٹ ورک چلانے میں سہولت فراہم کرتا رہا۔فروری 2023 میں، عامر تھیم نے کلکٹر انفورسمنٹ کا چارج سنبھالا اور متفرق اشیاء کے ساتھ ساتھ سپاری کے ا سمگلروں کوسہولیات فراہم کرتے رہے۔ملزم طارق محمود نے انکشاف کیا ہے کہ ایک عمران نورانی بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے کراچی تک سپاری کی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلا رہا ہے اور اسمگل شدہ سپاری کو دوسرے صارفین/خریداروں میں تقسیم کرتا ہے۔ملزمان طارق محمود اور یاور عباس کے قبضے سے برآمد ہونے والے حقائق، دستاویزی/ڈیجیٹل شواہد اور اب تک کی گئی انکوائری کے مطابق میں کسٹم ایکٹ 1969 کے سیکشن 5(2) پی سی اے 1947 اور سیکشن 156 (8) (89) کی خلاف ورزی کی گئی۔ذرائع کے مطابق اس ضمن میں چھالیہ کی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے منسلک کرداروں کو بھی بے نقاب کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی