ایکسپورٹ فنانس اسکیم کا غلط استعمال کروڑوں روپے کی کرپشن بے نقاب
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نے ایکسپورٹ فنانس اسکیم کی سہولت کا غلط استعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے کروڑوں روپے کرپشن کے الزام میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کو اطلاع ملی تھی کہ میسرز فیئرڈیل ٹیکسٹائل کراچی مقامی مارکیٹ میں ایکسپورٹ فنانس اسکیم کی سہولت کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ جس پر ڈائریکٹر جنرل پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ڈاکٹر قادر میمن نے ڈائریکٹر PCA سا¶تھ شیراز احمد کو اس اسکینڈل کا پردہ فاش کرنے کی ذمہ داری دی۔ جس پر پی سی اے افسران کی ایک ٹیم جس میں اے ڈی محمد سرفراز، اے او فہد اقبال اور اے او عمران حیدر پر مشتمل ٹیم نے کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 26 بی کے تحت میسرز فیئرڈیل ٹیکسٹائل کے احاطے میں ای ایف ایس سامان کی فزیکل جانچ پڑتال کی۔ ایف بی آر کے پاس دستیاب کسٹم، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک ابتدائی ڈیسک آڈٹ کیا گیا جس میں کئی جگہ پر غلط اعدادوشمار سامنے آئے۔ کیونکہ پی سی اے آڈٹ ٹیم صرف 5 ایم ٹن فیبرک ہی دیکھ سکی جو فیکٹری کے احاطے میں دستیاب تھی جبکہ باقی 106 ایم ٹن فیبرک غیر قانونی طور پر موجود تھا۔ ایکسپورٹ فنانس اسکیم کے قوانین کی خلاف ورزی پر اس سامان کو ضبط کیا گیا۔ جس میں 111 ایم ٹن فیبرک، جس کی مالیت 120 ملین روپے بتائی گئی ہے۔ ملزم امپورٹر نے 6 گڈز ڈیکلریشن کے ذریعے ایکسپورٹ فنانس اسکیم کا غلط استعمال کرکے 115 ملین روپے کا سامان درآمد کیا جس پر ڈیوٹی و ٹیکسز کی مد میں 51 ملین روپے واجب الادا تھے۔ پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی رپورٹ کے مطابق سامان فیکٹری میں موجود نہیں ہے جبکہ درآمد کنندہ نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا کہ مذکورہ سامان چمن ڈرائی پورٹ پر پڑا ہے اور اس نے جی ڈی کے مسودے کی ہارڈ کاپی بھی فراہم کی لیکن چمن کسٹمز سے تصدیق کے بعد یہ سامنے آیا کہ جی ڈی کا مسودہ جعلی تھا۔ درآمد کنندگان کو پاکستان میں کہیں بھی EFS سامان کی تصدیق کروانے کا موقع بھی دیا گیا، چاہے وہ فیکٹری کے باہر کہیں پڑا ہوا ہو اور اسے ٹرک کے رجسٹریشن نمبر، ڈرائیوروں کے سیل نمبر اور ٹرک کی صحیح جگہ اور گمشدہ سامان فراہم کرنے کو کہا گیا لیکن درآمد کنندہ ثبوت دینے میں ناکام رہاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ درآمد کنندہ نے مقامی مارکیٹ میں ایکسپورٹ فنانس اسکیم کا غلط استعمال کیا۔ درآمد کنندہ کی طرف سے فراہم کردہ برآمدی جی ڈی کا مسودہ بھی من گھڑت اور جعلی ثابت ہوا۔ سیکشن 32A کے تناظر میں مالی فراڈ کی ایک ایف آئی آر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ سا¶تھ نے درج کرادی۔ معائنہ کے دوران میسرز فیئرڈیل کا فیکٹری مینوفیکچرنگ ایریا بند پایا گیا، مشینیں خستہ حالت میں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فیکٹری کافی عرصے سے غیر فعال تھی۔ EFS سامان کے علاوہ، درآمد کنندہ مختلف اقسام کے کپڑوں کو درآمد کرتا ہوا پایا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درآمد کنندہ سامان کو درآمد کرنے اور بیچنے کے لیے مینوفیکچرنگ اسٹیٹس کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ فیبرک کی درآمدات کی بھاری مقدار بھی درآمد کنندہ کی مالی مالیت کے مطابق نہیں تھی اس لیے پوسٹ کلیئرنس آڈٹ منی لانڈرنگ کے پہلو کی بھی تحقیقات کر رہا ہے۔ پی سی اے کی ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔ میسرز فیئرڈیل ٹیکسٹائل کے تمام مالکان اور ڈائریکٹرز مفرور ہیں۔ پی سی اے کی دو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو ملزمان کی گرفتاری کے لیے ان کے مقامات کا سراغ لگا کر اور ان کے رہائشی مقامات کا پتہ لگائیں گی۔ تمام سمندری اور زمینی کسٹم ایکسپورٹ کلکٹریٹس کو بھی چوکس رہنے کے لیے الرٹ کر دیا گیا ہے کیونکہ ملزم درآمد کنندہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرسکتا ہے۔