سندھ ہائی کورٹ نے چھالیہ کی مس ڈیکلریشن پر ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیدیا
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ نے ٹرائیل کورٹ کی جانب سے چھالیہ کی مس ڈیکلریشن کے کیس میں دی گئی سزا کو ختم کرتے ہوئے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔ ہائی کورٹ نے البتہ ان ملزمان پر عائد کئے گئے جرمانے میں بھی کمی کرتے ہوئے چھالیہ کی ضبطگی کو برقرار رکھا ہے۔ کسٹم، ٹیکسیشن اینڈ اینٹی اسمگلنگ کورٹ کراچی نے کیس نمبر 235/2018 میں نامزد ملزمان غلام قیصر یوسف، قلندر بخش، عثمان علی اور محمد شکیل کو سی پی سی کے مختلف دفعات میں تین سال ، دس سال اور چھ سال کی سزا سنائی تھی۔ جبکہ ہر ملزم پر دو لاکھ فی کس جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق پریمیئر پلاسٹک ریسائکلنگ کمپنی نے اسکریپ کا دبائی سے 16 اکتوبر 2018 کو کنسائمنٹ منگوایا، میسرز سنز نے بحیثیت کسٹم ایجنٹ گڈز ڈیکلریشن فائل کی جس میں پلاسٹک اسکریپ جس کا وزن 26410 کلوگرام تھا، ڈکلیئر کیا۔ اس کنسائمنٹ کی جانچ سے معلوم ہوا کہ اس میں اسکریپ صرف 300 تھا جبکہ باقی وزن چھالیہ کا تھا جس کی درآمد کسٹم ایکٹ کے تحت ممنوع ہے۔ اس سے پہلے 31 اکتوبر 2018ءکو ایم سی سی پورٹ قاسم نے چارج شیٹ میں تحریر کیا تھا کہ درآمد کنندہ ا ور کلیئرنگ ایجنٹ نے مل کر کسٹم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور تقریبا 62 لاکھ روپے سے زائد کی ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کرنے کی کوشش کی۔ سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن پر تفتصیلی غور کرنے پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ جی ڈی اور ڈاکومنٹس جو فائل کئے گئے تھے، وہ جعلی تھے۔ ایک تو ان میں ڈکلیئر کردہ مقداردرست نہیں تھی جبکہ دوسری جانب اس کی مس ڈیکلریشن کی گئی اور ممنوعہ اشیاءیعنی چھالیہ کو درآمد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ میں یہ بھی لکھا کہ قلندر بخش جس نے جی ڈی فائل کی، اس کے علم میں کنسائمنٹ کی اشیاءکا تفصیلات نہیں تھیں،ہائی کورٹ کے مشاہدہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ٹرائیل کورٹ نے کیس میں اسمگلنگ کی دفعات کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کی سزا دی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس اپیل پر سزا کو ختم کرتے ہوئے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا اور چھالیہ کو ضبط کرنے کی سزا کو برقرار رکھا۔