کسٹمزمیگاکرپشن کیس کے انکشافات، ایف آئی اے نے فائنل چلان جمع کروادیا
کراچی (اسٹاف رپورٹر)فیڈرل انویسٹی گیشن ا یجنسی نے کسٹمز افسران اور اہلکاروں کے اسمگلنگ میں ملوث ہونے اور اسمگلروں سے رشوت وصول کرنے سے متعلق کیس کا حتمی چالان جمع کرادیا۔خصوصی جج کی عدالت نے پاکستان کسٹمز کے گریڈ17تاگریڈ21کے 36 افسران کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے۔واضح رہے کہ ایف آئی اے کو ایک حساس سیکیورٹی ایجنسی کی مدد حاصل سے رپورٹ ہوئی جس کے بعدطارق محمود اور یاور عباس سمیت دو اہلکار حراست میں ہیں جبکہ سابق کلکٹر عامر تھیم، میسرز سنی پراڈکٹس کے عمران نورانی، سابق کلکٹر عثمان باجوہ اور ثاقف سعید، محمد طیب، بلال قادری اور محمد فرقان کی ضمانتیں ہو چکی ہیں۔ عبدالرشید، محمد حذیفہ، پریونٹیو افسران شہباز احمد، حسن سردار، صلاح الدین، سابق کلکٹر فیروز عالم جونیجو اور سابق چیف کلکٹر منظور میمن مفرور ہیں۔تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ایس پی ایس افتخار حسن، آئی او اسد فاروقی، ایس پی ایس صلاح الدین وزیر، بشیر بھٹو، ایس پی او سہیل سکھا، اے ایس آئی واجد بھی اسمگلروں کی اس منظم سہولت میں ملوث ہیں۔ایف آئی اے نے نوٹ کیا کہ یہ واضح ہے کہ کسٹم افسران/اہلکار رشوت کی وصولی کے بدلے ایرانی ڈیزل اور چھالیہ سمیت مختلف اسمگل شدہ اشیاءکے اسمگلروں کو سہولت فراہم کرنے کے ذریعے مجرمانہ بدانتظامی میں ملوث ہیں۔انہوں نے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی اوریونٹیو کلکٹریٹ کے تحت انسداد اسمگلنگ آرگنائزیشن کے اشتراک سے منظم طریقے سے طریقہ کار اپنایا ہے۔چیک پوسٹوں پر تعینات پریونٹیو کے شعبہ اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کے افسران اسمگل شدہ اشیاءکو پورے ملک کے مختلف واٹس ایپ گروپس پر گاڑی کا نمبر بھیج کر منظم طریقہ کار کے ساتھ پورے پاکستان کے شہروں میں داخل ہونے دیتا تھے۔ گاڑیوں کے نمبرز کو ڈائریکٹوریٹ آف ایل اینڈ آئی کسٹمز کے افسران کے ذریعے بنائے گئے واٹس ایپ گروپس پر بھی شیئر کیا گیا تھا تاکہ اسمگلروں سے براہ راست تعلق رکھنے والی گاڑیوں کے نمبروں کو محفوظ کلیئرنس کے لیے درج کیا جا سکے، اس لیے اسمگل شدہ سامان کو بھی پریونٹیواورآئی اینڈآئی نے ضبط نہیں کیا تھا جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔دستاویزی شواہد کا بغور جائزہ لینے سے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل، کراچی کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کی جانب سے ملزم عمران یوسف نورانی کی لیپ ٹاپ پر جاری ہونے والی ابتدائی تکنیکی تجزیہ رپورٹ اور تفتیش کے دوران اب تک جمع کیے گئے زبانی شواہد اور ملزمان کے بامعنی انکشافات کئے جس یہ ثابت ہوا ہے کہ چھالیہ کے اسمگلروں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جو بلوچستان کے مختلف علاقوںاورسرحدوں سے چھالیہ اسمگل کرکے کراچی شہر میں لاتے تھے جنہیں مذکورہ بالا کمپنیوں کے ملزمان مالکان خریدتے ہیں جو کہ ملاوٹ کے ذریعے درآمد شدہ چھالیہ کی ایک قلیل مقدار میں اسمگل شدہ چھالیہ کی ایک بڑی مقدار میں تیارکر کے اسے پاکستان کے مختلف شہروں میں فروخت کر کے بھاری منافع حاصل کیا گیا جس کے نتیجے میں حکومت کو بھاری نقصان بھی ہوا۔ اس سلسلے میں پاکستان کسٹمز، سندھ پولیس کے افسران بشمول پاکستان رینجرز کے ایک کرنل نے بھی چھالیہ کی فیکٹریوں کے ملزم مالکان اور چھالیہ کے اسمگلروں کو اپنے اور اپنے اور چھالیہ کی فیکٹریوں کے ملزم مالکان کے مالی فائدے کے لیے غیر قانونی معاونت کی۔دستاویزی ،زبانی شواہد اور مذکورہ ملزمان کے بامعنی انکشافات کے مطابق، منظور میمن کے دورمیں ستمبر 2017 سے چھالیہ کے کارخانوں کے ملزمان مالکان اور اسمگلروں کو غیر قانونی سہولیات اور غیر قانونی مدد فراہم کرنا شروع کی گئی تھی۔ چیف کلکٹر کسٹمز جس نے اپنے ماتحت کسٹم آفیسر مولا اسلم (مرحوم)، سہیل سوکھا نامی ایک تاجراور کسٹم آفیسر محمد طیب خان کے ذریعے چھالیہ کے کارخانوں سے غیر قانونی طور پر بھاری رقوم وصول کی اور ستمبر 2017 سے 2019 کے آغاز کے دوران ملزم ایڈیشنل کمشنرآئی آرایس اعجاز احمد نے بھی 2019 سے مارچ 2020 تک کسٹم آفیسر محمد طیب خان اور پرائیویٹ شخص سہیل سکھا کے ذریعے میٹھی چھالیہ بنانے والی کمپنیوں سے رشوت کی مدمیں بھاری رقوم وصول کیں۔ثاقف سعید کلکٹر کسٹمز نے مذکورہ غیر قانونی طریقوں کو جاری رکھا جس نے خود کو ذیلی کسٹمز افسران ایس پی ایس افتخار بلہ، جبار مینی، نجی شخص انور پٹھان اورپرائیوٹ شخص حاجی داو¿د ملازئی کے ذریعے ستمبر 2019 سے اگست 2021 تک سپلائی کمپنیوں سے رشوت وصول کرنے میں ملوث رہے۔اس کے علاوہ سی ٹی ڈی کے ملزم علی رضا اور راجہ خالد ایک دوسرے کے ساتھ ملی بھگت سے چھالیہ فیکٹریوں سے رشوت مانگنے اور وصول کرنے میں بھی ملوث رہے۔انہوں نے مذکورہ ملزمان کو پاکستان کسٹمز کے چیف کلکٹر، کلکٹر، ڈائریکٹرز، ایڈیشنل کلکٹرز اور ڈپٹی کلکٹر کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرتے ہوئے اپنے اوپر نامزد ملزم کسٹمز افسران اور پرائیویٹ افراد کی غیر قانونی خدمات کا استعمال کرتے ہوئے بھاری رقم وصول کیں۔پاکستان کسٹمز کے مذکورہ بالا اعلیٰ افسران نے رشوت کی رقم کی وصولی کے لیے اپنے ماتحت کسٹمز افسران اور پرائیویٹ افراد کو استعمال کرتے ہوئے خود کو پس پردہ رکھا۔ لہٰذا، مذکورہ تمام ملزمان، مذکورہ بالا چھالیہ کمپنیوں کے مالکان، پاکستان کسٹمز کے افسران، رینجرز، پولیس اور پرائیویٹ افراد ایک دوسرے کی ملی بھگت سے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق ملزمان سے اب تک برآمد ہونے والے اور ضبط کیے گئے ڈیجیٹل آلات کا ایف آئی اے، سائبر کرائم سرکل، کراچی میں فرانزک کیا جا رہا ہے اور جیسے ہی فرانزک تجزیہ رپورٹس موصول ہوں گی، انہیں بھی اس عدالت میں پیش کیا جائے گا۔