Breaking NewsEham Khabar

کنسائمنٹس کی ٹریکنگ، نئی کمپنیوں کیلئے بڑا چیلنج

کراچی(اسٹاف رپورٹر) پاکستان کے ٹرانزٹ ٹریڈ سیکٹر کو بے مثال ہنگامہ آرائی کا سامنا ہے کیونکہ بانڈڈ کیریئرزنئے ٹریکنگ ڈیوائسزکی تنصیب کے لئے40کروڑروپے کا اضافی بوجھ اٹھانے پر مجبورہیںجس کے بعد صنعتی ماہرین ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈکی ناقص منصوبہ بندی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عبوری ٹریکنگ کا نظام جو صرف90دن کے لئے مقررکی گیاہے۔ زیرہ تبصرہ مدت ٹریکنگ نظام میں کنٹینرسرویلنس ڈیوائس کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس نظام کوتنقیدکا نشانہ بنایاجارہاہے۔ صنعتی ماہرین نے خبردارکیاہے کہ اس قسم کی نگرانی سے ٹرانزٹ آپریشن کے دوران اہم کارگوچوری کا باعث بن سکتے ہیں، ڈائریکٹرٹرانزٹ ٹریڈ نے ایک نیا اسٹینڈرڈآپریٹنگ طریقہ کار نافذکیاہے جس کے تحت تمام بانڈڈکیریئرزکونامزدکمپنیوں کے ذریعے پرائم موورڈیوائسز (پی ایم ڈیز)لگانے کی ضرورت ہے جس میں میسرزاین ایل سی اسمارٹ سلوشن کوایکسپورٹ پروسیسنگ زون(ای پی زیڈ)کے کارگوکی جبکہ میسرزوی ٹریک،میسرزعسکری انشورنس کمپنی اورمیسرزفیلکن آئی کو ملک کے دیگرحصوں میں کارگومنتقلی کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں جبکہ اس عبوری انتظام میں کنٹینرسرویلنس ڈیوائس کی کمی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس سے کارگو کی نقل و حرکت کے بارے میں سنگین سیکورٹی خدشات پیدا ہوئے تاہم مذکورہ ٹریکنگ کمپنیوں نے باقاعدہ لائسنسنگ معاہدوں کے بغیر عبوری مدت کے دوران کنٹینرسرویلنس ڈیوائس کو انسٹال کرنے سے بھی ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے۔ ٹریکنگ کمپنیوں کے نمائندوں کاکہناہے کہ یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے کہ لائسنس اور باقاعدہ معاہدہ کے بغیرکنٹینرسرویلنس ڈیوائس کو انسٹال کرنا شروع کر دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق 9 ٹریکنگ کمپنیاں بشمول سابقہ ٹریکنگ کمپنی نے نئے لائسنس کے لئے اپنی اپنی درخواست جمع کروادی ہیں، صنعتی ماہرین نے پیش گوئی کی کہ اگلا مرحلہ مشکل تر ہوگا۔ لائسنس ملنے کے بعد بھی کنٹینرسرویلنس ڈیوائس کو حاصل کرنے اور انسٹال کرنے میں چار مہینے لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ لائسنس حاصل کرنے کے بعد ٹریکنگ کمپنیوں کو کنٹینرسرویلنس ڈیوائس کی خریداری اور انسٹال کرنے کے لیے تین تاچار ماہ لگ سکتے ہیں، جس سے محکمہ کسٹم کے لیے کوئی آپشن نہیں بچے گا لیکن اس عرصے کے دوران کارگو کی نگرانی کے لیے مکمل طور پرپرائم موورڈیوائسز پر انحصار کرنا پڑے گا، نئے نظام کے صرف19دن میں پریشان کن رپورٹس پہلے ہی منظرعام پر آرہی ہیں ۔کارگو کا غیر معمولی پر رکنا ، قافلوں اور ڈرائیوروں کے درمیان ناقص ہم آہنگی کے بارے میں ذرائع نے بتایاکہ کنٹینرسرویلنس ڈیوائس کی عدم موجودگی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر چوری کے امکانات ہیں،کنٹینر کے تالے پر حساس آلات کی نگرانی کے بغیر پرائم موورز ٹرک پر سامان ہدف تک پہنچانے پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں پاکستان بزنس کونسل نے کارگو ڈائیورشن اور ریونیو کے نقصانات کے خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے خبردار کیاکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے انتظامات کا غلط استعمال ٹیکس ریونیو کے نقصان کا باعث سمیت مقامی صنعت کو نقصان پہنچاتا اور روزگار کو متاثر کرتا ہے۔آل پاکستان کسٹمز بانڈڈ کیریئر ایسوسی ایشن کی جانب سے ڈی جی ٹرانزٹ کو لکھے گئے ایک مکتوب میں متعدد خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے نئے نظام کی شدید مخالفت کی ہے کہ نئے نفاذ سے رولز 1118(1) کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جس میں پرائم موورڈیوائس اور کنٹینرسرویلنس ڈیوائس دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آل پاکستان برانڈڈ کیریئر ایسوسی ایشن کاکہنا ہے کہ بانڈڈ کیریئرز میسرز ٹی پی ایل ٹریکرکی ٹریکنگ ڈیوائسزپر 56کروڑروپے کی سرمایہ کاری کرچکے ہیںاوراب نئے ٹریکنگ کمپنی کی ٹریکنگ ڈیوائسزلگانے پر مجبورہیں۔ تمام معاملے کو قریب سے دیکھنے والے کسٹم کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ نااہل ٹریکنگ کمپنیوں کے تمام پرائم موورز ڈیوائسز90 دن کی عبوری مدت کے بعد ہٹا دیا جائے گا، جس سے کیریئرز کو نئے آلات میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ انہوں نے خود کو ایک موثر ریگولیٹر کے طور پر ثابت کرنے میں محکمہ کی ناکامی کا اعتراف کیا جس نے ٹی پی ایل ٹریکر کو تقریباً11 سال تک ٹریکنگ سسٹم پر اپنی گرفت برقرار رکھنے میں مدد کی۔ کسٹم کے سینئر افسر نے انکشاف کیا کہ تھرڈ پارٹی سیکیورٹی آڈٹ ٹی پی ایل کی تجویز پر ہی کروایا گیا تھا جس میں ٹیم لیڈز اور ملازمین کے ساتھ دستاویزات اور انٹرویوز کا جائزہ لینا تھا۔ کسٹم آفیسر سے جب استفسار کیا گیا کہ کیا انہوں نے اپنے آئی ٹی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کیا ہے جس پر انہوں نے فیلڈ فارمیشنوں ٹریکنگ ڈیوائسز کے غیر موثر ہونے کا اعتراف کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میسرز ٹی پی ایل نے تسلیم کیا کہ وہ ہائبرڈ سیٹلائٹ پلس (جی ایم ایس) ٹریکنگ کرنے میں ناکام رہا ہے لیکن ٹرانسپورٹ آپریٹرز سے سیٹلائٹ ٹریکنگ کی فیس وصول کی ہے۔ اس لیے، غیر منصفانہ سیٹلائٹ ٹریکنگ چارجز کی وصولی کے لیے ٹی پی ایل کو تقریباً 445 ملین روپے کا نوٹس دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جب ٹی پی ایل ٹریکر کے نمائندے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ڈی ٹی ٹی نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹی پی ایل ٹریکر کا سسٹم آئی ٹی کے مقررہ معیارات پر پورا اترتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی پی ایل ٹریکر نے ڈائریکٹوریٹ کو مطلع کیا کہ سیٹلائٹ ٹریکنگ اکتوبر 2023 سے ناقابل استعمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بار بار ڈائریکٹوریٹ کواے ٹی۔10ڈی ڈیوائسز کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس میں شرحوں پر نظرثانی کی گئی تھی تاکہ مسلسل بدلتے ہوئے رجحانات میں ٹریکنگ اور مانیٹرنگ کی اثراندازی کو بڑھایا جا سکے۔ ٹی پی ایل کے نمائندے نے کہا کہ موجودہ آلات کے ساتھ تفتان،کوئٹہ روٹ پر گاڑیوں اور کارگوز کی موثر نگرانی اور ٹریکنگ پر تحفظات کا اظہار کرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ٹی پی ایل ٹریکرکے خاتمے کا اعلان اکتوبر 2024 میں کیا گیا تھا لیکن لائسنس کے خاتمے کی مدت میں 31 دسمبر 2024 تک توسیع کر دی گئی تھی۔ کیونکہ محکمہ کسٹمز نے کنسائمنٹس کی ترسیل کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنے کے لئے کہا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹرانزٹ کارگوز کی نگرانی اور ٹریکنگ کے نئے لائسنس حاصل کرنے کے لیے کاغذات جمع کرادیئے ہیں۔ واضح رہے کہ ایس آر او 413/2012 کے تحت ہر سال ٹریکنگ کمپنیوں کو سسٹم آڈٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مذکورہ ایس آر او 2012 میں ایف ٹی او کی سفارشات پر 2011 میں ایساف کنٹینر اسکینڈل پر اپنی سالانہ رپورٹ میں نافذ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے 60 ارب روپے مالیت کے 28802 کمرشل اور 3542 ایساف/نیٹو کنٹینرز غائب ہونے کا پتہ چلا تھا۔ محکمہ کسٹمزنے 2012 سے سالانہ آڈٹ کی ضرورت کے قوانین کے باوجودمیسرزٹی پی ایل ٹریکر کا پہلا سسٹم آڈٹ 2023 تک نہیں کیا گیا تھااورحیران کن طور پر،ایس آراو 413، جو 2012 سے 2023 تک نافذ رہا، اس دوران ٹریکنگ کمپنی کی طرف سے تیار کردہ ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے اور ٹریکنگ کمپنی کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے کسٹمز مانیٹرنگ سافٹ ویئر کے لیے کسٹمز ڈیٹا اکھٹاکرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ جو 2023 میں جاری کردہ ترمیم شدہ ایس آر او 996 میں ڈال دیا گیا ہے۔محکمہ کسٹم کی جلد بازی نے ریگولیٹری اہلیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button