بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ ملک میں لانا چاہتے ہیں، غفور حیدری
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جمعیت علماءاسلام (ف) کے مرکزی رہنما اور سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم بے شمار پاکستانی سرمایہ اپنے وطن میں لانا چاہتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال خاص طور پر پاکستانیوں کا پیسہ آف شور کمپنیوں میں ہونے کی وجہ سے وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کسٹمز ایجنٹس کے زیر اہتمام ٹیکس ریفارم پر ہونے والے سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے مولانا غفور حیدری کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ان کی ملاقات بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے ہوئی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ جس سے پاکستان سے قرضوں کا بوجھ اتر سکتا ہے۔ غفور حیدری کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی ایسی صورت حال میں جبکہ آف شور کمپنیوں میں مقامی پاکستانیوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے تو کیونکر اپنا سرمایہ پاکستان لائیں۔ ان کے مطابق سی پیک میں ترقی کی وجہ سے پاکستان میں خزانے کا سیلاب امنڈ آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک میں ہمیں خالی ڈیوٹی اور ٹیکسز پر انحصار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں ان تمام علاقوں کو ترقی کی جانب گامزن کرنا چاہئے جدھر سے سی پیک روٹ گزر رہا ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ نظام میں بہت سی خامیاں ہیں جس کی وجہ سے تجارت بھی متاثر ہورہی ہے۔ نظام میں خامیوں کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لئے ہر صورت آئین میں موجود قوانین پر عملدرآمد ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 1973ءکے بعد سے ہم نے آئین کو ٹھیک طرح سے سمجھا ہی نہیں ہے۔ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین نے ایف پی سی سی آئی کے عہدیداروں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کی مشکلات کے حل کے لئے وزیراعظم اور دوسرے متعلقہ اداروں سے ضرور رابطہ کریں گے۔ اس موقع پر ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل کا کہنا تھا کہ ملک میں پیچیدہ ٹیکس نظام کی وجہ سے نئے ٹیکس پیئرز سسٹم میں نہیں آرہے ہیں جبکہ ایف بی آر موجودہ ٹیکس پیئرز پر مزید بوجھ بڑھاتی جارہی ہے۔ زبیر طفیل کا مزید کہنا تھا کہ خطے کی نسبت پاکستان میں ٹیکس پیئرز کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بھی 10 فیصد تک محدود ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر کا کہنا تھا کہ فوری طورپر ٹیکس اصلاحات لانے اور ٹیکس کی شرح بھی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس پیئرز کا اعتماد بڑھ سکے۔ آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین ارشد جمال نے اس موقع پر کسٹمز کے معاملات پر ایک تفصیلی بریفنگ دی جس میں انہوں نے اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ کسٹمز کے قوانین میں تھوڑی سی تبدیلی سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کے پی ٹی پر بہت گنجائش موجود ہے صرف پروسیجر کی تبدیلی سے ہم پورٹ کنجیکشن سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ ارشد جمال نے شہر میں بڑھتی ہوئی ٹرانسپورٹ کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو گوادر پورٹ کی طرف شفٹ کردینا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ اب مکمل طور پر کام شروع کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی امپورٹ کے لئے بھی گوادر پورٹ کو استعمال کرنا چاہئے۔اس طرح سے پورٹس پر طویل ٹائم بھی کم ہوگا اور ڈیمرج کی مد میں بڑی رقم بھی نہیں ادا کرنی پڑے گی۔ اس موقع پر چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی آن کسٹمز ایجنٹس ایف پی سی سی آئی قمر عالم کا کہنا تھا کہ کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں کسٹمز حکام ہر طرح سے تجارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ ٹرمینلز کے آپریشنز پر بھی بات کرنی چاہئے اور ان کی من مانیوں کو ختم کرنے کےلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔