۔334 ارب کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تیاری
کراچی (اسٹاف رپورٹر) حکومت نے IMFسے سخت شرائط پر مذاکرات شروع کردیئے جس کے بعد 334 ارب کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنیکی تیاری ہورہی ہے جبکہ 5بڑے برآمدی شعبوں پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگنے کا امکان،موبائل فونز بھی شامل، عمل درآمد کیلئے صدارتی آرڈیننس لایا جائیگا۔ بنیادی غذائی اشیاءو ادویات کی ٹیکس چھوٹ کو تحفظ دیا جائیگا، معاہدے کے بعد بجلی کے نرخ میں 1.40روپے فی یونٹ اضافہ متوقع، پاکستانی حکام ٹیکس چھوٹ واپس لینے اور ذاتی انکم ٹیکس میں ایڈجسٹمنٹ کو آئندہ بجٹ کے اعلان تک موخر کرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو جنرل سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف سطح کا معاہدہ کیا جا سکے، ان میں 178 ارب روپے کی تخمینی لاگت کے ساتھ درآمدات اور 156 ارب روپے کی لاگت سے مقامی سپلائی پر چھوٹ شامل ہیں۔ یہ دو بڑے حصے ہیں جہاں حکومت ایسے ایریاز کی نشاندہی کر سکتی ہے جہاں جی ایس ٹی چھوٹ واپس لی جا سکتی ہے تاہم بنیادی غذائی اشیاءاور ادویات کی جی ایس ٹی چھوٹ کو تحفظ دیا جائیگا۔ پرسنل انکم ٹیکس (پی آئی ٹی) 11 سلیبز ہیں اور زیر غور ایک تجویز یہ ہے کہ سلیبز کو 6 یا 7 پر لایا جائے جہاں کم سے کم ٹیکس قابل حد 0.6 ملین روپے اوپر ایڈجسٹ کی جا سکے جبکہ زیادہ آمدنی والے درجوں کی شرح میں اضافہ کیا جا سکے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد بجلی کے نرخ میں 1.40 روپے فی یونٹ اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات کریں گےتاہم چیزیں ابھی تک واضح نہیں ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف اسٹاف سطح پر معاہدہ کر پائیں گے یا نہیں۔ جائزہ مذاکرات میں توسیع کی جا سکتی ہے اگر 6 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت دونوں فریق چھٹے اور ساتویں جائزے کی تکمیل پر عملے کی سطح کا کوئی معاہدہ کرنے سے قاصر رہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی بانڈز کی پختگی پر اس ہفتے 1 ارب ڈالرز واپس کیے لہٰذا اسلام آباد کو خالص بین الاقوامی ذخائر اہداف کو پورا کرنے کے لیے ڈالرز کی آمد کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکس کے سخت اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن پاکستانی حکام اگلے بجٹ 2022-23 کے اعلان یا ان اقدامات کو نافذ کرنے تک سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لینے اور ذاتی انکم ٹیکس میں ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے آئی ایم ایف کو ٹیکس اقدامات میں تاخیر پر راضی کرنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر 300 ارب روپے کی جی ایس ٹی چھوٹ 100 سے 150 ارب روپے تک شروع ہونے والے دو سے تین مرحلوں میں فوری طور پر واپس لی جاسکتی ہے۔ آئی ایم ایف صرف چھٹے جائزے کی تکمیل پر آگے بڑھ سکتا ہے اور EFF تکمیل کی مدت میں بھی توسیع کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ محض تجاویز ہیں اس لیے ابھی تک کچھ حتمی شکل نہیں دی گئی۔ عملے کے سطح کے معاہدے کے لیے جی ایس ٹی چھوٹ واپس لینا بڑی شرائط میں سے ایک شرط ہوگی اور ان چھوٹ کو طے کرنے کیلئے آپشنز موجود ہیں جسے پہلے مرحلے میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہےاور پھر یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ جی ایس ٹی چھوٹ کی کل لاگت کا تخمینہ 578 ارب روپے لگایا گیا ہے، درآمدات پر چھٹے شیڈول کے تحت جی ایس ٹی کی چھوٹ کا تخمینہ 178.8 ارب روپے، مقامی سپلائی پر چھٹے شیڈول کے تحت چھوٹ (30 فیصد ایڈجسٹمنٹ کے بعد) 156 ارب روپے ، آٹھویں شیڈول (2٪ فیصد) کے تحت شرحوں میں 90 ارب روپے کی کمی، آٹھویں شیڈول (5٪ فیصد) کے تحت شرحوں میں 27 ارب روپے کی کمی، اور آٹھویں شیڈول (10 فیصد) کے تحت شرحوں میں 69.5 ارب روپے کمی لگایا گیا ہے۔ 9 ویں شیڈول کے تحت سیلولر موبائل فون پر سیلز ٹیکس کی واپسی کے ذریعے 27 ارب روپے کی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ سیلز ٹیکس ایکٹ کے پانچویں شیڈول کے تحت سیلز ٹیکس زیرو ریٹنگ پر 12.887 ارب روپے کا ریونیو اثر پڑا۔ سیلز ٹیکس ایکٹ کے پانچویں شیڈول کے تحت بڑے سیلز ٹیکس صفر درجہ بندی کی صورت میں ایف بی آر 12 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل کر سکتا ہے۔ پانچ بڑے برآمدی شعبوں پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ سے آمدنی کی بڑی رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔ ٹیکس چھوٹ کی قیمت طاقتور شعبوں سے یہ مراعات واپس لینے کیلئے پالیسی سازوں پر دباو ڈالتے ہوئےہر مالی سال گزرنے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ سیلز ٹیکس چھوٹ کی قیمت 2020-21 میں578.456 ارب روپے ہے جو 2019-20 میں 518.814 ارب روپے تھی جس سے 59.642 ارب روپے کے اضافے کی عکاسی ہوتی ہے۔ 378.03 ارب روپے کے مقابلے 448.046 ارب روپے انکم ٹیکس 70.016 ارب روپے اضافہ ظاہر کرتا ہے اور کسٹم ڈیوٹی چھوٹ کی قیمت 2020-21 میں 287.771 ارب روپے ہے جو 2019-20 میں 253.111 ارب روپے تھی جس سے 34.66 ارب روپے اضافے کی عکاسی ہوتی ہے۔