امپورٹ پالیسی آرڈر میں ترمیم کے بعد گاڑیوں کی کسٹمز کلیئرنس رک گئی
کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزارت تجارت کی جانب سے ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم کے تحت درآمد ہونے والی گاڑیوں کی کسٹمز کلیئرنس تقریبا رک گئی ہے جس کی وجہ سے محکمہ کسٹمز کو ماہانہ 5 تا 6 ارب روپے نقصان کا اندیشہ ہے۔ وزارت تجارت نے 4 دسمبر کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس کے ذریعہ امپورٹ پالیسی آرڈر 2016 میں ترمیم متعارف کروائی گئی تھی۔اس ترمیم کے تحت ٹرانسفر آف ریزیڈنس کے تحت لائی جانے والی گاڑیوں پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے لئے امپورٹر کو یہ ثابت کرنا ضرور قرار دیا گیا تھا کہ اس کے لئے رقم بیرون ملک سے لائی گئی ہے جبکہ اس کے لئے ترسیلات زر کی ملک میں ترسیل کے لئے بینک کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کسٹمز ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پہلے ہی پرسنل بیگیج اسکیم اور گفٹ اسکیم کے تحت گاڑیوں کی امپورٹ پر بینک سرٹیفکیٹ لازم ہے۔ لہذا محکمہ کسٹمز نے وزارت تجارت سے درخواست کی تھی کہ ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم پر بھی اسی قسم کی شرط عائد کردی جائے۔ کسٹمز ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرانسفر آف ریزیڈنس کی اسکیم کے تحت پاسپورٹ کا بہت غلط استعمال کیا گیا تھا اور حقیقی لوگ گاڑیاں نہیں لا رہے تھے جبکہ امپورٹس کے لئے بے تحاشا زرمبادلہ خرچ ہورہا تھا۔ محتاط اندازے کے مطابق گاڑیوں کی درآمد پر ملک سے تقریبا 60 سے 70 ارب روپے سالانہ زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے جبکہ اسی رقم کے مساوی کسٹمز حکام ڈیوٹی اور ٹیکس وصول کرتے ہیں۔