Uncategorized

ڈیوٹی وٹیکسز کی ادائیگیوں تبدیلی کے باعث 6000 سے زائدگاڑیوں کی کلیئرنس رک گئی

کراچی(اسٹاف رپورٹر)حکومت کی جانب سے ڈیوٹی وٹیکسوں کی ادائیگیوں کے طریقہ میں تبدیلی کے احکامات کے باعث درآمدہونے والی 6000 سے زائد استعمال شدہ گاڑیوں کی کسٹمزکلیئرنس رکنے اورمزید2000 گاڑیوں کی آمد سے کراچی بندرگاہ کے ایسٹ وہارف اور ویسٹ وہارف کے ٹرمینلز چوک ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں، وزارت تجارت کی جانب سے 9 جنوری 2018 کو جاری ہونے والے نئے احکامات کے مطابق پرسنل بیگیج، ٹی آر اورگفٹ اسکیم کے تحت درآمد ہونے والی گاڑیوں کے مالکان کوہی اپنے پاکستانی بینک اکاﺅنٹ میں کسٹم ڈیوٹی ودیگر ٹیکسوں کی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ میں ترسیلات ارسال کرنے کا پابندبنایا گیا ہے یا پھراسکے خونی رشتہ دار کے بینک اکاﺅنٹ میں ڈیوٹی وٹیکسوں کی مد میں بھیجی گئی ترسیلات اور اس اس ترسیل زرسے متعلق بینک ان کیشمنٹ سرٹیفکیٹ کومحکمہ کسٹمز میں داخل کردہ گڈز ڈیکلریشن کے ساتھ جمع کرانا ہوگا، ان نئے اقدامات کی وجہ سے کراچی بندرگاہ پر پہلے سے درآمد ہونے والی6000 سے زائد ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے کلیئرنس کا عمل رک گیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ ملک میں ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدی سرگرمیاں بند ہونے سے محصولات کی مد میں قومی خزانے کوتقریبا80 ارب روپے کے خسارے سے دوچارہونا پڑے گا، ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کسٹمزنے درآمدی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کا امبارلگنے سے کراچی بندرگاہ پرکنجیشن کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی بذریعہ مکتوب آگاہ کردیا ہے، اس ضمن میں کلکٹرکسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ شہناز مقبول نے بتایا کہ وزارت تجارت نے 4 دسمبر2017 کو پرسنل بیگیج اور گفٹ اسکیم کے ساتھ ٹرانسفر آف ریذیڈنس ٹی آر کے تحت درآمد ہونے والی گاڑیوں کے برآمدکنندہ کوبھی کسٹمز ڈیوٹی وٹیکسوں کی فارن کرنسی انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کے ساتھ مشروط کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام ملک میں غیرضروری درآمدات کوکم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ درآمداور برآمدات کے درمیان پیدا ہونے والے بڑے فرق کو کم کیا جاسکے اور تجارتی خسارے میں بھی کمی لائی جاسکے،انہوں نے کہا کہ پاکستان کسٹمزوفاقی حکومت کے احکامات کے مطابق خدمات فراہم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ درآمدہ ری کنڈیشنڈگاڑیوں کی کلیئرنس رکنے سے ایسٹ اور ویسٹ وہارف کے کنٹینرٹرمینلز پر6000 سے زائد گاڑیوں کے امبار لگ گئے ہیں جبکہ کچھ درآمدکنندگان نے عدالت میں اس حوالے سے پٹیشن بھی دائر کردیے ہیں،انہوں نے بتایا کہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدی سرگرمیوں کے ذریعے صرف کسٹمزاپریزمنٹ ویسٹ کلکٹریٹ سالانہ24 ارب روپے کاریونیو وصول کرتا ہے جبکہ دیگر کلکٹریٹس کی جانب سے بھی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے ذریعے بھاری ریونیو کی مد میں وصولیاں ہوتی ہیں، آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے بتایا کہ نئے اقدامات کے ذریعے حکومت نے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدات پر غیراعلانیہ طور پرپابندی عائد کردی ہے، ان نئے اقدامات کے باعث رواں سال کے آغاز سے ہی درآمدکنندگان نے جاپان ودیگرمارکیٹوں سے استعمال شدہ گاڑیوں کی خریداری معاہدے بند کردیے ہیں، انہوں نے کہا کہ سمندرپار پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق مزدور طبقے سے ہے جن میں سے اکثریت نے پاکستان میں اپنے بینک کھاتے نہیں کھولے ہیں، سمندرپارمقیم یہی مزدور طبقہ 660 اور1000 سی سی کی حامل ری کنڈیشنڈ گاڑیاں برآمد کررہا ہے اوران بھیجی گئی گاڑیوں کی فروخت کے شعبے سے 5 لاکھ افراد کا روزگاروابستہ ہے، انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستانی درآمدکنندگان نے رواں ماہ میں جاپان ودیگر مارکیٹوں میں ایک بھی ری کنڈیشنڈ گاڑی کی خریداری نہیں کی ہے، ایچ ایم شہزاد نے بتایا کہ مزکورہ ترامیم سے قبل خریدی جانے والی تقریبا3000 سے زائد ری کنڈیشنڈ گاڑیاں آئندہ چند روز میں پاکستان پہنچ جائیں گی جس کے بعد کراچی بندرگاہ پر کنجیشن کا ایک نیا بحران پیدا ہوجائے گا کیونکہ نئے ترمیمی اقدامات کے بعد کوئی بھی درآمدکنندہ اپنی گاڑی کو کلیئرکرانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بندرگاہ پر رکی ہوئی گاڑیوں کی کلیرنس کو یقینی بنانے کے لیے 31 دسمبر2017 تک پہنچنے والی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی بل آف لیڈنگ پر کلیئرنس کی اجازت دے اور بعد ازاں اسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی متعارف کرائے کیونکہ موجودہ ترمیمی پالیسی سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ بھیجنے والے سمندرپارمقیم پاکستانیوں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے بلکہ اس کاروبارسے وابستہ 5 لاکھ سے زائد افراد کا معاشی قتل اورمقامی اسمبلروں کو گاڑیوں کی قیمتوں میں اندھادھند اضافہ کرنے کا موقع دیا جارہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button