پورٹ قاسم پر گرین چینل کا غیرقانونی استعمال بڑھنے سے ممنوعہ مصنوعات کی اسمگلنگ میں اضافہ
کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان کسٹمز پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں گرین چینل کا غیرقانونی استعمال بڑھنے سے ملک میں ممنوعہ ودیگر مصنوعات کی اسمگلنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ کلکٹریٹ میں گرین چینل کا استعمال کرنے والا ایک منظم گروہ متحرک ہے جو ممنوعہ ودیگر اشیاءکی گرین چینل سے تیز رفتار کلیئرنس کرواکر ریونیو کی مد میں قومی خزانے کو ماہانہ کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے،قانونی درآمدکنندگان نے پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے گرین چینل کے ذریعے گزشتہ 13 ماہ کے دوران کلیئر ہونے والے تمام درآمدی کنسائمنٹس کی بعد ازکلیئرنس آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس حقیقت کا پتہ چلایا جاسکے کہ کلکٹریٹ کے گرین چینل سے کلیئرہونے والے کنسائمنٹس سے کن کن درآمدکنندگان نے غلط یا درست طور پراستفادہ کیا ہے ، قانونی درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ کلکٹریٹ میں تعینات ایک ایڈیشنل کلکٹرودیگر متعلقہ اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے گرین چینل کے ذریعے مس ڈکلیئرڈ کنسائمنٹس کی کلیئرنس زوروں پر ہے جبکہ قانونی طور پر درست ڈیوٹی وٹیکسوں کی ادائیگیاں کرنے والے امپورٹرز کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں اورقانونی کنسائمنٹس کی کئی بارکسٹمز ایگزامنیشن واسسمنٹ کی وجہ سے درآمدکنندگان کونہ صرف ہراساں کیا جارہا ہے بلکہ انکے کنسائمنٹس کی کلیئرنس کی مدت بڑھنے سے ان پر بھاری ڈیمرج وڈیٹینشن چارجز کا بوجھ بھی ڈالا جارہا ہے، واضح رہے کہ چند ہفتے قبل ہی اچانک کسٹمزایگزامنیشن کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ مس ڈکلریشن کے ذریعے انتہائی مہلک کیمیکل ایسٹک ہائیڈرائیڈ ملک میں اسمگل کیا جارہا ہے جبکہ حال ہی میںآئرن اینڈ اسٹیل اسکریپ کی ایک کھیپ کوبھی گرین چینل کے ذریعے کلیئرکراکے قومی خزانے کو ریونیو کی مد میں23 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا،درآمدکنندگان کا موقف ہے کہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے حکام قانونی درآمدکنندگان کے لیے زحمت جبکہ گرین چینل مافیا کے رحمت ثابت ہورہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں انسداد اسمگلنگ کی متعدد بڑی نوعیت کی کاروائیوں کے باوجود منظم اندازکی اسمگلنگ سے قومی معیشت کو سالانہ 1000 ارب روپے کا خطیرنقصان پہنچ رہا ہے، درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ انکے درآمدی کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں بلاجواز تاخیر کے نتیجے میں مس ڈکلیئرڈ یا اسمگل شدہ مصنوعات کی مارکیٹوں میں آمد پہلے ہوجاتی ہے جبکہ قانونی طور پر امپورٹ ہونے والی اسی نوعیت کی مصنوعات مارکیٹوں میں اس وقت پہنچتی ہیں کہ جب اسمگلرزاپنی مصنوعات مارکیٹوں کے بیوپاریوں کوفروخت کرچکے ہوتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ کسٹمز حکام زمینی حقائق کے مطابق اس ضمن میں تحقیقات کا اعلان کریں تاکہ قانونی طورپر درآمدات کرنے والے مایوس امپورٹرز کی حوصلہ افزائی اور اسمگلروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔