منی لانڈرنگ اسمگلنگ، فراڈ اور ٹیکس چوری معیشت کو بری طرح متاثر کررہی ہے،شمشاداختر
کراچی(اسٹاف رپورٹر)نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب دوگنا کیے بغیر ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکتے، موجودہ 8.5 تا 9فیصد کے ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب کو آئندہ 3 سے 5سال میں دوگنا کرنا ہے، یہ بات انہوں نے کسٹمز ہاوس کراچی میں عالمی کسٹمز ڈے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، وزیرخزانہ نے کہا کہ کسٹمز میں اصلاحات اور خصوصا کراس بارڈر ٹریڈ ایک مشکل مرحلہ ہے، اصلاحات کے ایجنڈے میں ڈیوٹی کی شرح اور ایس آر اوز کی تعداد میں کمی شامل ہے، منی لانڈرنگ اسمگلنگ فسکل فراڈ اور ٹیکس چوری معیشت کو بری طرح متاثر کررہی ہے اور اس حوالے سے محکمہ کسٹمز میں ایک آسان اور سہل سسٹم بنانے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کےلیے مشاورت کاعمل گذشتہ 5ماہ سے جاری ہے، ایف بی آر ممبران سے بھی اصلاحات سے متعلق سفارشات اسکیمیں لی گئی ہیں، اصلاحات میں چیئرمین ایف بی آر بھی آن بورڈ ہے، توقع ہے اس سال ایف بی آر 9400ارب روپے سے زائد کا ریونیو ہدف حاصل کرلے گا، انہوں نے کہا کہ ریونیو کے حصول کے لیے آگاہی مہم بہت ضروری ہے، نگراں وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان کسٹمز کے مختلف ممالک کے ساتھ کثیرالجہتی معاہدے ہورہے ہیں، پاکستان سنگل ونڈو متاثرکن ہے جو برآمدات کے فروغ اور ادائیگیوں کو متوازن بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے بارڈر اسٹیشن پر ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم اینٹگ ریٹڈ ہوگئے ہیں جسکے نتیجے میں انسانی مداخلت کے بغیر ٹریڈ کلیئرنس تیز رفتار اور تجارتی حجم بڑھے گا، پاکستان میں 2 سے 4 کھرب روپے کا ریونیو پوٹنشل ہے، ریونیو بڑھانے کے لیے ٹیکس اور ویلیوایشن پراسیسنگ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں ریونیو وصولی کے بجائے دیانت داری اور مستعدی پر فخر محسوس کرنا چاہیے، پاکستان کسٹمز داخلی سطح پر شفافیت اور بلند معیار کے گوننس کے ذریعے ہماری توقعات پوری کریگا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کسٹمز کو آئی آر ایس سسٹم کو استوار کرنا ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی سی ایل اور ایس ایس جی سی کے گردشی قرضوں سے متعلق آئی ایم ایف کو آگاہی کےلئے وزارت توانائی اور وزارت خزانہ آن بورڈ ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ممبر کسٹمز آپریشنز ایف بی آر ڈاکٹر فرید اقبال نے کہا کہ ہم عالمی تجارت کو آسان بنانے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت میں دنیا بھر میں کسٹم انتظامیہ کے اہم کردار کی یاد منانے کے لیے جمع ہیں جس کا “مقصد کے ساتھ روایتی اور نئے شراکت داروں کو شامل کرنا” کے موضوع کے تحت ہم بین الاقوامی تجارت کی ابھرتی ہوئی حرکیات اور اس بدلتے ہوئے منظر نامے کو نیویگیٹ کرنے میں باہمی تعاون کی اہم ضرورت کا جائزہ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں کسٹم حکام نے سرحد پار تجارت کو منظم کرنے، قوانین اور ضوابط کی پابندی کو یقینی بنانے اور ڈیوٹی وٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر ڈالی ہے۔ تاہم آج کی باہم جڑی ہوئی دنیا میں ہمارے چیلنجز تیزی سے پیچیدہ اور کثیر جہتی ہو گئے ہیں۔ تجارتی عمل کی تیزی، ڈیجیٹلائزیشن اور بین الاقوامی جرائم ودہشت گردی جیسے نئے خطرات کے ابھرنے تک، جدید حل اور تزویراتی شراکت داری کی ضرورت اس سے زیادہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، رواج کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف روایتی اسٹیک ہولڈرز جیسے کہ دیگر سرکاری ایجنسیوں، بین الاقوامی تنظیموں، اور کاروباری برادری کے ساتھ بلکہ نئے شراکت داروں بشمول ٹیکنالوجی فرموں، تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی اور وسیع تر عوام کے ساتھ بھی شامل ہوں۔ ان متنوع اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی مہارت اور وسائل کو بروئے کار لا کر، ہم غیر قانونی سرگرمیوں کا زیادہ مو¿ثر طریقے سے مقابلہ کرتے ہوئے جائز تجارت کو آسان بنانے کی اپنی صلاحیت کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کسٹمز نے سرحد پار تجارت سے متعلق اپنی کلیئرنس کے عمل کو ہموار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا کامیابی سے استعمال کیا ہے، لیکن ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نئے شراکت داروں کے ساتھ مزید تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کے اداروں اور کاروباریوں کے ساتھ قریبی تعاون کرتے ہوئے ہم اپنے سسٹمز کو جدید بنانے اور مسابقتی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے جدید ترین ٹولز جیسے مصنوعی ذہانت، اور ڈیٹا اینالیٹکس کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کلکٹر کسٹمز باسط عباسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ کسٹمز نے انسداد اسمگلنگ مہم کے تحت گذشتہ 7ماہ میں تابڑ توڑ کاروائیاں کرتے ہوئے 1000کیسز میں 3.5ارب روپے کی اسمگل شدہ اشیاءضبط کیے، انسداد اسمگلنگ مہم کی کاروائیوں میں محکمہ کسٹمز کے اہلکاروں پر حملے بھی ہوئے، محکمہ کسٹمز ایم ایس اے و قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اشتراک سے کاروائیاں کررہا ہے۔