پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ،آئرن اسٹیل اورٹائزاسکریپ کی درآمدپر بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ بے نقاب
کراچی (اسٹاف رپورٹر)پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ساﺅتھ نے 9درآمدکنندگان کی جانب سے منیوفیکچرنگ اسٹیٹس کاغلط استعمال کرکے2020تا2024کے دوران آئرن اسٹیل اورٹائراسکریپ کے 1294کنسائمنٹس درآمدکرنے اور 9ارب 70کروڑمالیت کی منی لانڈرنگ کرنے پر ملزمان میں شامل میسرز میٹل ٹاس (پرائیویٹ) لمیٹڈ، میسرزیونٹی ری سائیکلنگ انڈسٹری، میسرزدی میٹریل ہاو¿س، میسرزفارنیکس آئیکون (پرائیویٹ) لمیٹڈ،میسرز میٹروپولیٹن اسٹیل کارپوریشن لمیٹڈ،میسرز حسنین انٹرنیشنل،میسرز خلیج ٹریڈنگ،میسرز ایچ بی اینڈ سنزاورمیسرز الحدید اسٹیل کے خلاف9الگ الگ مقدمات درج کرلئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ساو¿تھ نے لوہے اور اسٹیل کے شعبے میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں 9ارب 70کروڑروپے کے ایک گھپلے کا پردہ فاش کیا ہے۔ اس اسکینڈل کا تعلق نو جعلی درآمد کنندگان سے ہے جنہوں نے ڈیوٹی ٹیکس کی مد31کروڑ50لاکھ روپے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے “مینوفیکچرنگ اسٹیٹس” کا ناجائزفائدہ اٹھایا۔تفصیلات کے ،مطابق پی سی اے ساو¿تھ نے اطلاعات کے بعد، لوہے اور اسٹیل کی درآمدات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس سیکٹرکا آڈٹ شروع کیا۔ پی سی اے ساو¿تھ نے نو درآمد کنندگان کو آڈٹ نوٹس جاری کیے، تاہم کورئیر کمپنی کی جانب سے تمام نوٹسز اس ریمارکس کے ساتھ واپس کیے گئے کہ پتے ناقابلِ شناخت تھے۔ پی سی اے ٹیموں کی تصدیق کے بعد، اس بات کی تصدیق ہوئی کہ نو درآمد کنندگان کے پتہ درست نہیں ہیں بعدازاں ایف بی آر کے ڈیٹا بیس کی چھان بین سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کمپنیوں نے 9اارب72کروڑ روپے بیرون ملک منتقل کیے جب کہ مینوفیکچرنگ اسٹیٹس کے غلط استعمال کے ذریعے حاصل کی گئی غیر قانونی چھوٹ کے ذریعے 31کروڑ50لاکھ مالیت کے ٹیکس چوری کئے۔ذرائع کے مطابق درآمد کنندگان نے غیر قانونی طور پر ملک سے فنڈز کو باہر نکالنے کے لیے ایک منظم سازش کی۔ درآمد کنندگان نے ٹیکس کی سہولت اور ڈیوٹی اورٹیکس کی کم شرح کا جھوٹا دعویٰ کیا جس کی اجازت صرف مینوفیکچرنگ کے لیے تھی۔ درآمد کنندگان ایک ہی ریاست کے لوہے اور اسٹیل کی مصنوعات کی تجارتی فروخت میں مصروف ہیں جب کہ ان کے پاس کوئی مینوفیکچرنگ سہولیات یا کاروباری جگہ نہیں ہے۔ جانچ پڑتال نے یہ بھی انکشاف کیا کہ نو درآمدکنندگان کی جانب سے انکم ٹیکس کی ادائیگیاں انتہائی کم کی گئیں تھی جوکہ درآمدات کی مالیت سے بہت کم تھی جس کی وجہ سے اتنی بڑی درآمدات کی مالیت انتہائی مشکوک تھی اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ نو درآمد کنندگان میں سے تین نے انکم ٹیکس گوشوارے بالکل بھی فائل نہیں کیے، جبکہ ان کی جانب سے دوارب 48کروڑ روپے کی درآمدات کی گئیںجو منی لانڈرنگ کو ظاہر کرتی ہے۔ پی سی اے کی ٹیم ان جعلی کارروائیوں کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈز کی شناخت کے لیے گہرائی سے چھان بین کر رہی ہیں۔ تحقیقات میں اس بات کا بھی احاطہ کیا جائے گا کہ اس طرح کی کمپنیاں بغیر کسی وجود کے مینوفیکچرنگ اسٹیٹس رجسٹریشن حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئیں۔ ڈی جی پی سی اے چوہدری ذوالفقار علی اور ڈائریکٹر پی سی اے ساو¿تھ شیراز احمد کی سربراہی میں ٹیموں نے اس دھوکہ دہی سے پردہ اٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خصوصی ٹیموں کے متحرک ہونے اور تحقیقات میں تیزی کے ساتھ، ایف بی آر تمام مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہے۔