پاک افغان باہمی تجارت کو تیز کرنے کے حوالے سے تاجر برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر جلد عمل درآمد کیا جائے،ضیاءالحق سرحدی
پشاور(اسٹاف رپورٹر)پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدرخالد شہزار اور کوآرڈینیٹرو ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان باہمی تجارت کو تیز کرنے کے حوالے سے تاجر برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر جلد عمل درآمد کیا جائے،ایک بیان میںخالد شہزاد اور ضیاءالحق سرحدی نے کہا کہ حال ہی میں پشاور، اسلام آباد اور چمن (بلوچستان)میں پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے منعقدہ اسٹیک ہولڈرز کے اجلاسوں کے دوران تاجروں کو ان کے مطالبات کے حوالے سے یقین دہانی کرائی گئی تھی جبکہ درپیش مسائل کی وجہ سے دوطرفہ تجارت کی آمدورفت میں تاخیر ہو رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ میٹنگز میں مختلف مسائل اٹھائے گئے تھے جن میں لیبر چارجز، لوڈنگ ان لوڈنگ ، افغان سائیڈ پر ٹرانزٹ گڈز پر ٹیکس، خالی کنٹینرز کی کلیئرنس کی سست شرح، کلیئرنس اور نقل و حرکت کے لیے بارڈر کراسنگ پر محدود اوقات اور تاخیرجبکہ افغان تاجروں کے لیے ویزا پروسیسنگ شامل ہیں اسی طرح متعدد بارکی جانے والی یاد دہانیوں اور بات چیت کے باوجود ایک سال سے افغان کی جانب سے47ہزارT1فارمز زیر التواء ہیںجبکہ کراچی میںٹرانزٹ گڈز کی سست پروسیسنگ جس میں پہلے کلیئرنس کراچی سے افغانستان ٹرک 4 یا 5 دنوں میں پہنچ جاتے تھے لیکن سست روی کی شکار پالیسی کی وجہ سے یہ ٹرک 10سے15 دنوں میں پہنچتے ہیں،جس کی وجہ سے اضافی چارج اور وقت کا ضیع ہوتا ہے جبکہ کراچی میں ڈسٹفنگ کا نوٹیفیکیشن ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور اس سلسلے میں حالیہ دنوں میں چیئرمین ایف بی آر عاصم احمدپشاور کے دورے کو موقع پر دیگر مسائل کے علاوہ اس مسئلہ پر بھی ان کی توجہ مبذول کرائی گئی لیکن اس کے باوجود ابھی تک مسئلہ حل نہ ہوسکا جس کی وجہ سے کراچی سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز پشاور /طورخم /کابل افغانستان جانے پر کافی دن لگ جاتے ہیں اور یہی کنٹینرز جب واپس آتے ہیں تو خوڑ میدان جلال آباد میں کافی دن روکے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کنٹینرز پر لاکھوں روپے کا ڈی ٹینشن چارج (ڈیمرج)ادا کرنا پڑتا ہے۔پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں نے ایف بی آر ، کسٹمز، این ایل سی ، شیپنگ اور پورٹس سمیت مختلف محکموں کے متعلقہ حکام سے درخواست کی کہ وہ ان رکاوٹوں کو جلد از جلددور کرنے کے لیے اقدامات کریںاور خاص طورپر ٹرانزٹ ٹریڈ میں سست روی کی شکار پالیسی کو ختم کیا جائے تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کا عمل مطلوبہ سطح تک تیز ہوجائے۔