پی سی اے نارتھ اسلام آباد، ایکپسورٹ فیسی لیٹیشن اسکیم کا غلط استعمال ،اربوں روپے کااسکینڈل بے نقاب
اسلام آباد(اسٹاف رپورٹر)ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نارتھ اسلام آبادنے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اورقومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے پرمیسرزپریمیم ٹیکسٹائل بیلنکٹ انڈسٹری کے خلاف قانونی کارروائی کاآغازکردیاہے جبکہ پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نارتھ اسلام آبادنے آڈٹ آبزرویشن کے اجراءکے بعد کیس کو ایف آئی آر درج کرنے اور مشترکہ تحقیقات کے لیے کلکٹریٹ آف کسٹمز (اپریزمنٹ) پشاور کو بھیج دیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ (نارتھ) اسلام آباد نے اس امرکی نشاندہی کی ہے کہ میسرزپریمیم ٹیکسٹائل کی جانب سے ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) کا غلط استعمال کرکے قومی خزانہ کو ایک ارب 43 کروڑ91لاکھ روپے مالیت کا نقصان پہنچایاہے۔پی سی اے نارتھ اسلام آبادمیں تعینات افسران کی جانب سے میسرزپریمیم ٹیکسٹائل کے درآمدی ڈیٹاکی جانچ پڑتال کی گئی توانکشاف ہوکہ مذکورہ کمپنی کی جانب سے منظم طریقہ کاراستعمال کرکے ایکسپورٹ فیسی لیٹیشن اسکیم کا لائسنس حاصل کیاگیااوراسکیم کواپنے مطلوبہ مقاصدکے لئے استعمال کیاکیا،میسرزپریمیم ٹیکسٹائل کی جانب سے کپڑادرآمدکرکے اپنی برآمدی ذمہ داریوں سے گریزکرتے ہوئے کپڑامقامی مارکیٹ میں فروخت کیاگیا۔پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نارتھ کی جانب سے بنائی جانے والی آڈٹ آبزویشن میں کہاگیاہے کہ آڈٹ افسران کی جانب سے کمپنی کااسٹاک چیک کرنے کے دوران انکشاف ہواکہ باڑہ بازار، خیبر کے علاقے میں واقع فیکٹری مناسب لیبرومینوفیکچرنگ سہولیات موجودنہیں ہیں ۔دستاویزات کے مطابق میسرزپریمیم ٹیکسٹائل نے 24لاکھ کلوگرام کپڑے کی درآمد کی جبکہ درآمد شدہ فیبرک اسٹاک میں 21لاکھ کلوگرام کپڑاکم ہے جو مقامی مارکیٹ میں فروخت کردیاگیاہے۔آڈٹ رپورٹ یہ بھی بتایاگیاہے کہ مذکورہ کمپنی کی کاروباری سرگرمیوں سے اس امرکی تصدیق ہوئی کہ ایک منظم منصوبہ کے تحت ستمبر 2023 میں کمپنی رجسٹرڈہوئی اور درآمد کنندہ نے بڑی چالاکی کے ساتھ سپلائی چین بنائی اور کراچی کی بندرگاہوں سے فیصل آباد اپریزمنٹ کلکٹریٹ کو کے پی (فاٹا کے علاقے) میں نام نہاد فیکٹری کے نام پر کنسائمنٹس کی کلیئرنس کروائی گئی ۔آڈٹ آبزرویشن کے اجراءکے بعد پی سی اے نارتھ نے کیس کو ایف آئی آر درج کرنے اور مشترکہ تحقیقات کے لیے کلکٹریٹ آف کسٹمز (اپرائزمنٹ) پشاور کو بھیج دیاتاکہ محکمہ کسٹمز ہائی الرٹ رہیں اور فراڈ کرنے والے ادارے کی مستقبل میں درآمدات کو روکا جا سکے جبکہ حکومتی ریونیو کی وصولی کے لیے مجرموں اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔