محکمہ کسٹمزکی چھتری تلے چھالیہ کی اسمگلنگ عروج پر
کراچی(اسٹاف رپورٹر)چھالیہ کی درآمدکو لیب ٹیسٹ سے مشتروط کرنے اوراس پر 74فیصدریگولیٹری ڈیوٹی لگانے سے چھالیہ کی اسمگلنگ میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہے جس کے باعث چھالیہ کی مدمیں آنے والے ڈیوٹی ٹیکسزقومی خزانے میں جانے کے بجائے اسمگلروں اورمحکمہ کسٹمزکے افسران واہلکاروںکی جیبوں میں جارہے ہیں اوراس رقوم سے اسمگلراورکسٹمزافسران مالی طورپر مضبوط ہورہے ہیں۔ذرائع نے بتایاکہ عمران نورانی نامی شخص چھالیہ کی فیکٹریوں کے مالکان سے کروڑوں روپے مالیت کی رقوم جمع کرکے کسٹمزانٹیلی جنس اورکسٹمزانفورسمنٹ کو پہنچاتاہے جس سے اس امرکاتاثرمل کررہاہے کہ چھالیہ کے غیرقانونی دھندے میں کسٹمزافسران اسمگروں کے سہولت کاربنے ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق سپاری فیکٹریوں کے مالکان میں شامل حنیف ہارون، اقبال بھائی،حسین بھائی،جاویدتارہ،عمیرٹیسٹی،عابدبمبی،طاہرچھیپا،مشتاق،عاطف،ندیم،کاشف عمران اوردیگرمحکمہ کسٹمزکے افسران اورکسٹمزانٹیلی جنس کے افسران کو کروڑوں روپے ماہانہ رشوت دیتے ہیں تاکہ ان کی فیکٹریوں میں موجودچھالیہ کو ضبط کرنے کے لئے فیکٹریوں پر چھاپے نہ مارے جائیں ،ذرائع نے مزید بتایاکہ فیکٹری مالکان کی جانب سے کروڑوں روپے کی رشوت دینے کا اصل مقصد اسمگل شدہ چھالیہ سے فیکٹری چلانے کی اجازت ملناہے اوریہ تمام کام کسٹمزافسران کی سربراہی میں ہورہاہے ۔واضح رہے کہ ملک میں چھالیہ کی ماہانہ قانونی درآمدصرف 8سے10کنٹینرزکی ہے جبکہ چھالیہ کی ماہانہ کھپت 500کنٹینرزسے بھی زائد ہے جس سے اس امرکی وضاحت ہوتی ہے کہ چھالیہ کاکاروبارکرنے والے کافی عرصے سے اسمگل کی جانے والی چھالیہ سے اپنی فیکٹریاں چلارہے ہیں اوران تمام فیکٹریوں کو مہیاکی جانے والی چھالیہ زیادہ ترافغان ٹرانزٹ ٹریڈاورگرین چینل کے ذریعے کلیئرہونے والے درآمدی کنسائمنٹس کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ذرائع کا مزید کہناہے کہ چھالیہ کی اسمگلنگ ایک بہت منظم اندازمیں کی جاتی ہے اوراس اسمگلنگ میں عبداللہ پٹھان،ہاشم،حاجی معیب،خٹک،صادق بابا،نعمت اللہ اوردیگرشامل ہیں یہ تمام لوگ فیکٹری مالکان کو چھالیہ فراہم کرتے ہیں اورکسٹمزافسران چھالیہ نہ پکڑنے اورفیکٹریوں پرچھاپہ نہ مارنے کے عوض کروڑوں روپے کی رشوت وصول کرتے ہیں اوررشوت کی وصولی میں ایک ایس پی ایس آفیسراورعمران نورانی اہم کرداراداکرتے ہیںاوراس سارے دھندے میں پولیس کو بھی رشوت دی جاتی ہے تاکہ پولیس بھی چھالیہ نہ پکڑے۔یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے کسٹمزانٹیلی جنس اورکسٹمزانفورسمنٹ میں تنازعہ بڑھ گیاہے ، عمران نورانی اورایک ایس پی ایس آفیسرکے دوگروپ بن گئے ہیں عمران نورانی کسٹمزانٹیلی جنس کا سہولت کاربناہواہے ۔ذرائع کا کہناہے کہ محکمہ کسٹمزکی جانب سے چھالیہ فیکٹریوں پر چھاپہ کے لئے گاڑیاں روانہ توکی جاتی ہیں لیکن گاڑیاں چھاپہ مارے بغیرہی واپس آجاتی ہیں کیونکہ گذشتہ دنوں محکمہ کسٹمزکی جانب سے برائے نام چھاپے مارے گئے اس میں نہ توکوئی گرفتاری ہوئی اورنہ چھالیہ ضبط گئی۔ذرائع کا کہناہے کہ محکمہ کسٹمزاورکسٹمزانٹیلی جنس کی جانب سے چھالیہ پکڑی جاتی ہے اوربعد ازاں اس کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے متعددواقعات بھی رونماہوچکے ہیں جس سے اس امرکی تصدیق ہوتی ہے کہ پکڑی جانے والی چھالیہ ان اداروں کے گوداموں سے باہرفروخت ہوتی رہی ہے۔تحقیقات سے اس امرکا انکشاف ہواہے کہ کیس کی شنوانی کرنے والے مختلف فورم پر پکڑی جانے والی چھالیہ کو ریلیزکرنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں لیکن محکمہ کسٹمزنے ان احکامات کو ہوامیں اڑادیاکیونکہ محکمہ کسٹمزپہلے ہی چھالیہ کو فروخت کرچکاہوتاہے۔ذرائع نے بتایاکہ ایک سینئرپریونٹیوآفیسرنے گذشتہ دنوں میرپورخاص اورحیدرآبادسے چھالیہ پکڑکرکروڑوں روپے رشوت لی اوربعدازاں چھالیہ واپس کردی اوراس ڈیل میں ایک ایڈیشنل کلکٹرکسٹمز،ایڈیشنل کمشنرانکم ٹیکس ایک ایس پی ایس آفیسراوردیگرکسٹمزافسران شامل ہیں جنہوں نے کروڑوں روپے رشوت لے کرپکڑی جانے والی چھالیہ واپس کردی۔ذرائع کے مطابق حکومت کی نااہلی کے باعث سرکاری خزانے میں محصولات آنے کے بجائے اسمگلروں اورکسٹمزافسران اپنی جیبیں بھررہے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ چھالیہ پر لگائی جانے والی 74فیصدریگولیٹری ڈیوٹی کم کرے اورچھالیہ کی قانونی درآمدکو یقینی بنائے جس سے چھالیہ کی اسمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہواورسرکاری خزانے میں سالانہ اربوں روپے کے محصولات اکھٹے ہوسکیں کیونکہ کسی بھی آئٹم پر ٹیکس کا تناسب زیادہ کرنے سے اس کی درآمدتوبندہوجاتی ہے لیکن ٹیکسوں کی وجہ سے اسمگلروں کی چاندی ہوجاتی ہے