افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت تجارت رواں سال مزید گھٹ کر1.6ارب ڈالرتک محدود ہوگئی،ضیاءالحق سرحدی
کراچی (اسٹاف رپورٹر،05جنوری 2018)پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی نے کہا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت رواں سال باہمی تجارت مزید گھٹ کر1.6ارب ڈالرتک محدود ہوگئی جبکہ بھارت کی جانب سے افغان تاجروں کے لیے چابہار بندرگاہ کے ذریعے ترغیبات کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں کے نتیجے میں ٹرانزٹ ٹریڈ میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے عمل میں ہر سطح پر مسائل بڑھ گئے ہیں جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں چمن اور طورخم سرحدوں کے ذریعے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولتوں میں اضافے کے مواقع سے متعلق بھی دونوں ممالک کے تاجرابہام کا شکار ہیں۔ضیاءالحق سرحدی جو کہ سرحدچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریکے سابق سینئر نائب صدرہیں نے کہا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں سیاسی مسائل کو باہمی تجارت سے الگ کر دیں اور مختلف سطح پر رکاوٹیں ختم کر دیں تو پاک افغان تجارت کا حجم نہ صرف 7.5ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ سکتا ہے بلکہ ایک لاکھ پاکستانیوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ طور پر روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے تجارتی خسارے پر فوری طور پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان21جنوری2016 کو اقوام متحدہ میں کنونشن آن انٹر نیشنل ٹرانسپورٹ آف گڈز انڈرکورآف ٹی آئی آر کار نیٹس (ٹی آئی آرکنونشن)پر دستخط کر چکے ہیں۔اور اس طرح سی پیک منصوبے کے ذریعے پاک افغان ٹرانزٹ کے لیے سہولتوں میںاضافہ کر کے پاکستان کو افغانستان کے توسط سے وسط ایشیا کی تمام ریاستوں تک آسان رسائی مل سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کو آرڈینیشن اتھارٹی کے توسط سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی سر گرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جائے،کسٹمز قوانین آسان بنائے جائیں،سرحدوں کے ذریعے ٹرانزٹ کارگو کی آمدورفت کو سہل بنایا جائے اور اس معاہدے پر نظر ثانی کی جائے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال2009سے 2012کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت میں 46فیصد کی کمی ہوئی تھی لیکن جون 2012میں اے پی ٹی ٹی کے نئے معاہدے پر عملدرآمد سے سال2014-15کے وسط تک پاک افغان تجارت کا حجم 65فیصد بڑھ کر2.5ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا لیکن اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی اور غیر موافق حالات سے بھارت نے افغان مارکیٹ میں اپنا عمل دخل بڑھاتے ہوئے چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے افغانی تاجروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جس کے نتیجے میں سال2017میں پاک افغان تجارت کا حجم دوبارہ تنزلی کا شکار ہو گیا اور اب باہمی تجارت کا حجم گھٹ کر1.6ارب ڈالر رہ گیا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے پاک افغان تجارت کے حجم میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔ضیاءالحق سرحدی جو کہ فرنٹیئر کسٹمز ایجنٹس گروپ خیبر پختونخوا کے صدر بھی ہیں نے مزید کہا کہ افغانستان نے بھارت کے لیے دوسری فضائی راہ داری بھی کھول دی ہے جس سے بھارت کے شہر ممبئی کے ساتھ فضائی تجارتی رابطہ قائم ہو گیا ہے۔اس سے قبل افغانستان اور نئی دہلی کے درمیان فضائی تجارتی رابطے کے لیے راہ داری قائم کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ ممبئی کے لیے اس پہلی پرواز میں40ٹن تازہ پھل اور خشک میوہ جات کے ساتھ طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں بھیجی گئی ہیں۔افغانستان نے رواں برس جون میں بھارت کے لیے پہلی فضائی راہ داری قائم کی تھی جس سے ہفتہ وار بنیادوں پر پروازیں آتی جاتی ہیں اور اب تک52پروازوں کے ذریعے مجموعی طور پر1550ٹن تازہ پھل،خشک میوہ جات،ہاتھ سے بنے ہوئے قالین اور طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں بھارت بر آمد کی گئی ہیں۔اس وقت افغانستان کے درمیان تجارت کا مجموعی حجم60کروڑ ڈالر سالانہ ہے،اس نئی راہ داری کے بعد تجارت بڑھ کر1ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں جانب کی بیورو کریسی افغان ٹرانزٹ ٹریڈسمیت پاک افغان باہمی تجارت کی ٹریڈ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے تاکہ پاک افغان باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہو